روزے کے متعلق سوالات

  • Admin
  • Dec 20, 2021

کیا مرد حضرات گھروں میں اعتکاف کر سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

  مردوں کے اعتکاف کے لیے مسجد شرط ہے ، مسجد کے علاوہ گھروں میں خواہ مسجدِ بیت ہو یا کوئی جائے نماز کہیں بھی مردوں کا اعتکاف نہیں ہوسکتا ، گھروں میں فقط عورتوں کے لیے مسجد ِ بیت (یعنی گھروں میں نماز کے لیے مخصوص جگہ) پر  اعتکاف ہوتا ہے ،مردوں کا نہیں ۔

     یا درہے کہ  رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے کہ اگر پورے شہر میں سے کسی نے بھی نہ کیا ، تو سب سے اس کا مطالبہ رہے گا ،اور اگر کسی ایک نے بھی کر لیا ، تو سب بریء الذمہ ہوجائیں گے ۔

     اللہ عز وجل قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿ وَلَا تُبَاشِرُوۡہُنَّ وَاَنۡتُمْ عَاکِفُوۡنَ فِی الْمَسَاجِدِ ﴾ ترجمۂ کنز الایمان : ” اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو ۔ “

     اس آیت کے تحت صدر الافاضل سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں : ”مردوں کے اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے۔ “

(پارہ 2 ، سورۃ البقرۃ ، آیت 187)

     سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے : ” ولا اعتكاف الا في مسجد جامع  “ ترجمہ : ( مردوں کا ) اعتکاف نہیں ہوگا ، مگر جامع مسجد میں ۔

( سنن ابی داؤد ، جلد 2 ، صفحہ 333 ، مطبوعہ بیروت )

     اس کے تحت جامع کی قید استحبابی ہونے سے متعلق مرأۃ المناجیح میں ہے : ”اگر اس سے جمعہ والی مسجد مراد ہو جہاں نماز جمعہ بھی ہوتی ہو ، تو یہ حکم استحبابی ہے کہ جمعہ والی مسجد میں اعتکاف مستحب ہے ۔( اعتکاف )جائز تو ہر مسجد میں ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتاہے:﴿وَاَنۡتُمْ عٰکِفُوۡنَ فِی الْمَسٰجِدِ﴾“

( مرأۃ المناجیح ، جلد 3 ، صفحہ 216 ، مطبوعہ ضیاء القرآن ، لاھور )

     شرح بخاری لابن بطال میں ہے : ” وأجمع العلماء أن الاعتكاف لا يكون إلا فى المساجد “ ترجمہ : علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ (مردوں کا ) اعتکاف صرف و صرف مسجد میں ہی ہوگا ۔

( شرح صحیح البخاری لابن بطال ، جلد 4 ، صفحہ 161 ، مطبوعہ مکتبہ رُشد ، ریاض )

     بدائع الصنائع میں ہے : ”اما الذی یرجع الی المعتکَف فیہ فالمسجد و انہ شرط فی نوعی الاعتکاف الواجب و التطوع “ترجمہ : بہر حال جس جگہ اعتکاف کیا جائے ، اس کی شرائط : تو اس کے لیے مسجد ہونا شرط ہے اور یہ نفلی اور واجبی دونوں طرح کے اعتکاف کے لیے شرط ہے ۔

(بدائع الصنائع ، کتاب الاعتکاف ، شرائط الصحۃ ، جلد 2 ، صفحہ 280 ، مطبوعہ کوئٹہ )

     مردوں کا اعتکاف مسجدِ بیت میں نہیں ہوسکتا ۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے : ” مساجد البيوت فإنه لا يجوز الاعتكاف فيها إلا للنساء كذا في القنية “ترجمہ : مسجدِ بیت میں عورتوں کے علاوہ کسی کا اعتکاف جائز نہیں ہے ۔ جیسا کہ قنیہ میں ہے ۔

( الفتاویٰ الھندیہ ، کتاب الکراھیۃ ، الباب الخامس فی آداب المسجد ، ج 5 ، ص 321 ، مطبوعہ بیروت )

     بہارِ شریعت میں ہے : ”مسجد میں اﷲ (عزوجل) کے لیے نیّت کے ساتھ ٹھہرنا اعتکاف ہے  ۔۔۔ مسجد جامع ہونا اعتکاف کے لیے شرط نہیں بلکہ مسجد جماعت میں بھی ہوسکتا ہے۔ مسجد جماعت وہ ہے جس میں امام و مؤذن مقرر ہوں، اگرچہ اس میں پنجگانہ جماعت نہ ہوتی ہو اور آسانی اس میں ہے کہ مطلقاً ہر مسجد میں اعتکاف صحیح ہے اگرچہ وہ مسجد جماعت نہ ہو، خصوصاً اس زمانہ میں کہ بھتیری(بہت سی) مسجدیں ایسی ہیں جن میں نہ امام ہیں نہ مؤذن۔ “

( بھارِ شریعت ، ح 5 ، ج 1 ، ص 1020 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

     عورتوں کے اعتکاف سے متعلق بہارِ شریعت میں ہے : ” عورت کومسجد میں اعتکاف مکروہ ہے، بلکہ وہ گھر میں ہی اعتکاف کرے مگر اس جگہ کرے جو اُس نے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کر رکھی ہے ، جسے مسجدِ بیت کہتے ہیں اور عورت کے لیے یہ مستحب بھی ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مقرر کر لے اور چاہیے کہ اس جگہ کو پاک صاف رکھے اور بہتر یہ کہ اس جگہ کو چبوترہ وغیرہ کی طرح بلند کرلے۔ “

( بھارِ شریعت ، ح 5 ، ج 1 ، ص 1021 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

     رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف سنتِ موکدہ علی الکفایہ ہونے کے متعلق درر الحکام میں ہے : ” وهو واجب في المنذور وسنة مؤكدة في العشرة  الأخيرة من رمضان “ ترجمہ : منت مانی ہو ، تو اعتکاف واجب ہے اور رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف سنتِ مؤکدہ ہے ۔

     اس کے تحت سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہونے سے متعلق حاشیہ شرنبلالی میں ہے : ” أي سنة كفاية للاجماع على عدم ملامة بعض أهل بلد إذا أتى به بعض منهم في العشر الأخير من رمضان كذا في البرهان “ ترجمہ : یعنی سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے کیونکہ اس پر اجماع ہے کہ جب کسی شہر میں بعض لوگ رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کر لیں ، تو باقیوں پر کوئی ملامت نہیں ہوگی ۔ جیسا کہ برہان میں ہے ۔

( حاشیہ شرنبلالی علی درر الحکام ، ج 1 ، ص 212 ، مطبوعہ دار احیاء الکتب العربیہ ، بیروت )

     مجمع الانہر میں اس کو سنت موکدہ علی الکفایہ قرار دے کر فرمایا : ” لو ترك أهل بلدة بأسرهم يلحقهم الإساء وإلا فلا “ ترجمہ : اگر تمام شہر والے چھوڑ دیں گے ، تو ہی ان کو اساءت ( یعنی سنتِ موکدہ چھوڑنے والی وعید ) لاحق ہوگی ، ورنہ نہیں ۔

( مجمع الانھر ، جلد 1 ، صفحہ 255 ، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ، بیروت )

     صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں : ”یہ اعتکاف سنت کفایہ ہے کہ اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذمہ۔“

( بھارِ شریعت ، حصہ  5 ، جلد 1 ، صفحہ 1021 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ  اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ  اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مفتی محمدقاسم صاحب

 

رمضان میں شیطان کو کہاں قید کیا جاتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

     ماہِ رمضان بہت فضائل کا حامل ہے، احادیث طیبہ میں  اس کے کثرت سے فضائل بیان فرمائے گئے ہیں ، انہی میں سے ایک فضیلت صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتب احادیث میں یہ بتائی گئی ہے ،کہ جب رمضان المبارک آتا ہے، تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتےہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔

     بخاری و مسلم میں ہے:’’اذا دخل رمضان، فتحت ابواب الجنۃ وغلقت ابواب جھنم وسلسلت الشیاطین‘‘ترجمہ: جب رمضان المبارک شروع ہوتاہے، تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتےہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے‘‘۔( صحیح البخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس وجنودہ، جلد 1، صفحہ 463، قدیمی کتب خانہ، کراچی)

     مسلم شریف میں ’’صفدت الشیاطین‘‘کے الفاظ بھی موجود ہیں ، جن کے معنی ہیں: شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔( صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل شہر رمضان، جلد 1، صفحہ 346، قدیمی کتب خانہ، کراچی)

     محدثین کرام و علمائے عظام نے اس حدیث مبارکہ کی شرح میں مختلف اقوال نقل فرمائے ہیں :

     ایک قول کے مطابق یہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول ہے، کہ حقیقی طور پہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتےہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔ ( یہ بھی کہا گیا ہے، کہ تمام شیاطین کو قید نہیں کیا جاتا، بلکہ سرکش شیاطین قید ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ بعض روایات میں ’’مردۃ الشیاطین‘‘کے الفاظ آئے ہیں )۔

     بہر صورت یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قید کر کے کہاں رکھا جاتا ہے؟ اس کے متعلق در منثور، شعب الایمان، کنز العمال، فضائل شہر رمضان للبیہقی وغیرہ میں یہ روایت منقول ہے کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات آتی ہے، اللہ عزوجل فرماتا ہے: اے رضوان: جنتوں کے دروازے کھول دو، اے مالک: امت محمدی کے روزہ داروں کے لئے جہنم کے دروازے بند کر دو اور اے جبریل: زمین پر اترو، سرکش شیاطین کو قید کرو، ان کو طوق اور ہتھکڑیوں کے ساتھ جکڑ کر سمندر میں پھینک دو، تا کہ وہ میرے حبیب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے امتیوں کے روزوں میں فساد نہ پھیلا سکیں۔ ( بعض روایات میں ’’سمندر کی گہرائیوں ‘‘میں پھینک دینے کا ذکرہے)۔

     جبکہ دوسرے قول کے مطابق یہ حدیث مجازی معنی پر محمول ہے، یعنی روزے کی وجہ سے شہوت، غصے اور دیگر گناہوں کا سبب بننے والی قوتِ حیوانیہ ختم ہو جاتی ہے، اور نیکیوں کی طرف مائل کرنے والی قوتِ عقلیہ بیدار ہوجاتی ہے، اس وجہ سے انسانی نفوس، شیاطین کی طرف سے دھوکا کھانے اور ان کے وسوسے قبول کرنے سے رک جاتے ہیں  اورشیاطین اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتے، تو یہ حصول مقصد کے معاملے میں ایسے ہی ہو جاتے ہیں جیسے انہیں قید کر دیا گیا ہو۔

     حدیث کے اپنے ظاہری معنی پر محمول ہونے کے متعلق  شرح نووی میں ہے : ’’(وصفدت الشیاطین) فقال القاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی: یحتمل انہ علی ظاھرہ وحقیقتہ، وان تفتیح ابواب الجنۃ وتغلیق ابواب جھنم وتصفید الشیاطین علامۃ لدخول الشھر وتعظیم لحرمتہ ویکون التصفید لیمتنعوا من ایذاء المؤمنین والتھویش علیھم‘‘ ترجمہ: (شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے) علامہ قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں احتمال ہے کہ یہ اپنے ظاہری و حقیقی معنی پر محمول ہو اور بے شک جنت کے دروازوں کو کھولنا ،اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دینا،اور شیاطین کو جکڑ دیا جانا ،اس ماہِ مبارک کے داخل ہونے کی علامت، اور اس کی حرمت کی تعظیم کے لئےہے اور شیاطین کو اس لئے جکڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ مؤمنوں کو ایذا دینے اور انہیں فتنے میں ڈالنے سے باز رہیں‘‘۔( شرح نووی علی مسلم، جلد 7، صفحہ 188، مطبوعہ:بیروت)

     بعض شیاطین کو قید کرنے کے متعلق عمدۃ القاری میں ہے : ’’وقیل: المسلسل بعض الشیاطین وھم المردۃ لا کلھم، کما تقدم فی بعض الروایات، ۔۔ وقیل: لا یلزم من تسلسلھم وتصفیدھم کلھم ان لا تقع شرور ولا معصیۃ، لان لذلک اسبابا غیر الشیاطین، کالنفوس الخبیثۃ والعادات القبیحۃ والشیاطین الانسیۃ‘‘ترجمہ: ایک قول کے مطابق بعض سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، نہ کہ تمام شیاطین کو،جیسا کہ پیچھے بعض روایات میں بیان ہو چکا، ۔۔ اور کہا گیا ہے کہ: تمام شیاطین کو جکڑنے اور قید کر دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اب برائیاں اور گناہ نہیں ہوں گے، کیونکہ ان کے اسباب تو شیاطین کے علاوہ اور بھی ہیں۔ جیسے: خبیث نفوس، بری عادات اور انسانی شیاطین ‘‘۔(عمدۃ القاری، کتاب الصوم، جلد 8، صفحہ 27، دار الحدیث، ملتان)

     شیاطین کو سمندر میں پھینک دینے کا حکم دیا جاتا ہے، چنانچہ شعب الایمان، الترغیب و الترہیب، کنز العمال وغیرہ کی طویل حدیث مبارکہ کا کچھ حصہ یہ ہے: ’’ان الجنۃ لتنجد وتزین من الحول الی الحول لدخول شھر رمضان، فاذا کانت اول لیلۃ من شھر رمضان، ھبت ریح من تحت العرش، ۔۔ ویقول اللہ عز وجل: یا رضوان: افتح ابواب الجنان، ویا مالک: اغلق ابواب الجحیم علی الصائمین من امۃ محمد ویا جبریل: اھبط الی الارض، فاصفد مردۃ الشیاطین  وغلھم بالاغلال، ثم اقذفھم فی البحار، حتی لا یفسدوا علی امۃ محمد حبیبی صیامھم‘‘ترجمہ: بے شک جنت کو ماہِ رمضان کی آمد کے لئے ایک سال سے دوسرے سال تک آراستہ و مزین کیا جاتا ہے، پس جب ماہِ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو عرش کے نیچے سے ہوا چلتی ہے، ۔۔ اور اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: اے رضوان! جنتوں کے دروازے کھول دواور  اے مالک! امتِ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے روزہ داروں پر جہنم کے دروازے بند کر دو اور اے جبریل ( علیہ السلام)! زمین پر اترو اور سرکش شیاطین کو قید کرو، ان کو طوق اور ہتھکڑیوں کے ساتھ جکڑ کر سمندر میں پھینک دو، تا کہ وہ میرے حبیب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے امتیوں کے روزوں میں فساد پیدا نہ کر سکیں ‘‘۔(شعب الایمان، کتاب الصیام، جلد 5،صفحہ 276، مکتبۃ الرشد، ریاض)

     کنز العمال کے الفاظ یہ ہیں :’’ثم اقذف بھم فی لجج البحار‘‘( یعنی شیاطین کو جکڑ کر) سمندر کی گہرائیوں میں پھینک دو ‘‘۔( کنز العمال، کتاب الصوم، فصل فی فضلہ وفضل رمضان، جلد 8، صفحہ 586، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)

     حدیث شریف کا مجازی معنی بیان کرتے ہوئے علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’(وسلسلت الشیاطین) ای قیدت بالسلاسل مردتھم وقیل: کنایۃ عن امتناع تسویل النفوس واستعصائھا عن قبول وساوسھم، اذ بالصوم تنکسر القوۃ الحیوانیۃ، التی ھی مبدا الغضب والشھوات الداعیین الی انواع السیئات وتنبعث القوۃ العقلیۃ المائلۃ الی الطاعات، کما ھو مشاھد ان رمضان اقل الشھور معصیۃ واکثرھا عبادۃ‘‘ ترجمہ: (شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے) یعنی ان میں سے سرکش شیاطین کو زنجیروں کے ساتھ قید کر دیا جاتا ہے۔ ایک قول کے مطابق ( شیاطین کو قید کرنا) انسانی نفوس کے گمراہ ہونے اور شیطانی وسوسوں کے قبول کرنے سے بچنے سے کنایہ ہے، کیونکہ روزے کی وجہ سے مختلف برائیوں کا سبب بننے والے غصے اور شہوتوں کو پیدا کرنے والی قوتِ حیوانیہ ختم ہو جاتی ہے اور نیکیوں کی طرف مائل کرنے والی قوتِ عقلیہ بیدار ہو جاتی ہے۔ جس طرح مشاہدہ ہے کہ دیگر مہینوں کی بنسبت ماہِ رمضان میں گناہ کم اور عبادت زیادہ ہوتی ہے ‘‘۔( مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصوم، جلد 4، صفحہ 387، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)

     شرح صحیح بخاری لابن بطال میں ہے :’’(فتحت ابواب الجنۃ وسلسلت الشیاطین) معنیین: احدھما: انھم یسلسلون علی الحقیقۃ، فیقل اذاھم ووسوستھم ولا یکون ذلک منھم، کما ھو فی غیر رمضان وفتح ابواب الجنۃ علی ظاھر الحدیث والثانی: علی المجاز ویکون المعنی فی فتح ابواب الجنۃ ما فتح اللہ علی العباد فیہ من الاعمال المستوجب بھا الجنۃ من الصلاۃ والصیام وتلاوۃ القر آن،۔۔ وکذلک قولہ: (سلسلت الشیاطین)یعنی: ان اللہ یعصم فیہ المسلمین او اکثرھم فی الاغلب عن المعاصی والمیل الی وسوسۃ الشیاطین وغرورھم‘‘ترجمہ: (جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے) اس حدیث کے دو معنی ہیں:  ایک ظاہری: وہ یہ کہ انہیں حقیقۃً قید کر دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کاشر اور وسوسے کم ہو جاتے ہیں اور ان کی طرف سے یہ معاملات رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں کی طرح نہیں ہوتے نیز جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوسرا مجازی: یعنی جنت کے دروازے کھولنے سے مراد اللہ عزوجل کا اس ماہِ مبارک میں اپنے بندوں کو نماز، روزے اور تلاوتِ قرآن وغیرہ جنت میں لے جانے والے اعمال کی توفیق عطا فرمانا ہے، ۔۔ یونہی شیاطین کو جکڑنے سے مراد: اللہ عزوجل کا اس ماہِ مبارک میں تمام یا اکثر مسلمانوں کو گناہوں اور شیطانی وساوس اور ان کے دھوکے کی طرف مائل ہونے سے بچانا ہے ‘‘۔( شرح صحیح البخاری لابن بطال، کتاب الصیام، جلد 4، صفحہ 20، مکتبۃ الرشد، ریاض)

 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

 

مفتی محمد قاسم صاحب

 

 

سحری میں اذان ہونے تک کھانا پینا

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

    صبح صادق ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے ، اور اذان،  فجر کا وقت شروع ہونے پر،نماز فجر کے لیے دی جاتی ہے ، لہذا جو شخص اذان کے بعد تک کھاتا پیتا رہا تو اس کا روزہ نہ ہوا ،اس شخص پر اس روزے کی قضا لازم ہے۔

      تنویر الابصار میں ہے:”تسحر یظن الیوم لیلا والفجر طالع قضی فقط“ترجمہ: اگر رات  کا گمان کرتے ہوئے سحری کرلی جبکہ فجر طلوع ہوچکی تھی  تو فقط قضا لازم ہے۔"    

(در المختار مع رد المحتارجلد3صفحہ 436مطبوعہ بیروت)

     فتاوی رضویہ میں اسی طرح کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا :" بریلی بلگرام کے قریب قریب عرض کے شہروں میں سحری چار بجے تک کھانی چاہئے، ساڑھے چار بجے کب کی صبح ہوچکتی ہے، اس وقت کچھ کھانے پینے کے معنی ہی نہ تھے، وہ روزہ یقینانہ ہوا اُس کی قضا فرض ہے۔"                                      

(فتاوی رضویہ   جلد10صفحہ 517مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور)

     ایک اور مقام پہ فرمایا: "اس رمضان شریف میں پانچ بجے تک کسی طرح وقت نہ تھا جبکہ پانچ بجے تک سحری کھائی تور وزہ بلاشبہ ہواہی نہیں کہ توڑنا صادق آئے، قضا لازم ہے اور کفارہ نہیں۔"

 (فتاوی رضویہ   جلد10صفحہ 519مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور)

     بہار شریعت میں ہے: "یہ گمان کر کے کہ رات ہے، سحری کھالی یا رات ہونے میں شک تھا اور سحری کھا لی حالانکہ صبح ہو چکی تھی، ان سب صورتوں میں صرف قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔"

 (بہار شریعت    جلد1 حصہ 5صفحہ 989مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

محمد حسان صاحب

 

کن صورتوں میں روزہ توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے؟

 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

   رمضان مبارک میں روزہ دار مکلّف مقیم نے ادارمضان کا روزہ رکھاجس کی نیت رات سے کی تھی اوربغیر جبر و اکراہ شرعی اور بھول کے کسی آدمی کے ساتھ جو قابلِ شہوت ہے، اُس کے آگے یا پیچھے کے مقام میں جماع کیا، انزال ہوا ہو یا نہیں یا اس روزہ دار کے ساتھ جماع کیا گیا یا اس روزے دارنے بغیر عذر صحیح اور بغیر جبر و اکراہ شرعی اور بھول کے کوئی غذا یا دوا کھائی یا پانی پیا یا کوئی نفع رساں چیز کھائی، یا کوئی چیز لذّت کے لیے کھائی یا پی یا کوئی ایسا فعل کیا جس سے افطار کا گمان نہ ہوتا ہو اور اس نے گمان کر لیا کہ روزہ جاتا رہا پھر قصداً کھا پی لیا تو ان سب صورتوں میں روزہ کی قضا اور کفّارہ دونوں لازم ہیں، البتہ اگر ان تمام صورتوں میں کہ جن میں افطار کا گمان نہ تھا اور اس نے گمان کر لیا اگر کسی مفتی نے فتویٰ دے دیا تھا کہ روزہ جاتا رہا اور وہ مفتی ایسا ہو کہ اہل شہر کا اس پر اعتماد ہو، اس کے فتویٰ دینے پر اس نے قصداً کھا لیا یا اس نے کوئی حدیث سنی تھی جس کے صحیح معنی نہ سمجھ سکا اور اس غلط معنی کے لحاظ سے جان لیا کہ روزہ جاتا رہا اور قصداً کھا لیا تو اب کفّارہ لازم نہیں، اگرچہ مفتی نے غلط فتویٰ دیا یا جو حدیث اس نے سنی وہ ثابت نہ ہو۔

     کفارہ لازم ہونے کے لیے ان تمام صورتوں کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ روزہ توڑنے کے بعد اسی دن میں افطار سے پہلے کوئی آسمانی عذر مثل حیض، نفاس یا ایسا مرض جس کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے یا توڑنے کی اجازت ہو، وغیرہ پیدا نہ ہو، کیونکہ اگر اسی دن روزہ توڑنے کے بعد عورت کو حیض یا نفاس شروع ہو گیا،یا روزہ توڑنے والے کو ایسی بیماری لگ گئی جس کی وجہ سے اس کے لیے روزہ نہ رکھنے کی شرعاً اجازت ہے تو اب صرف قضا لازم ہو گی کفارہ لازم نہیں ہو گا۔

     جن صورتوں میں روزہ توڑنے پرکفّارہ لازم نہیں ان میں یہ بھی شرط ہے کہ ایک ہی بار ایسا ہوا ہو اور معصیت کا قصد نہ کیا ہو، ورنہ ان میں بھی کفّارہ دینا ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مفتی محمد قاسم صاحب